Wednesday, 22 April 2020

اب خواب وصل کوئی پرونا تو ہے نہیں
 پلکوں کو آنسوؤں سے بھگونا تو ہے نہیں
ہنستے ہوئے ہی کیوں نہ کروں آج ضبط غم
 پہلے کی طرح اب مجھے رونا تو ہے نہیں
رہنا ہے آج رات ستاروں کے درمیاں
 نیند آئے اس سے کیا ہوا سونا تو ہے نہیں
کیوں اوڑھ کر زمین نہ سوجاؤں آج میں
 آ باد دل کا اب کوئی کونا تو ہے نہیں
بنجر سے ہوگئے ہیں امیدوں کے سارے کھیت
 اب ان میں بیج پیار کا بونا تو ہے نہیں
کیوں نہ کتاب عشق کو رکھ دوں میں شیلف میں
 پھر سے جوان اب مجھے ہونا تو ہے نہیں
اب میری اتنی فکر نہ کر میرے ہمنوا
 اس بار مجھ کو میلے میں کھونا تو ہے نہیں

No comments:

Post a Comment