Saturday 23 May 2020

ایک ‏غزل

ہمارے عہد میں کچھ یوں بھی کاروبار ہوتا ہے
جو شئے بیکار ہو اس کا بہت پرچار ہوتا ہے

ہوس کا ہے پجاری، دیوتا ہے کوئی چاہت کا
جدا میری کہانی کا ہر اک کردار ہوتا ہے

شناسائی ہے لہروں سے، نہ ان ہاتھوں میں ہے طاقت 
کسی کی مہربانی ہے جو بیڑا پار ہوتا ہے

کوئی سوکھا شجر یہ کہ رہا ہے رو کے بادل سے
جو کام آجائے مشکل میں وہ سچا یار ہوتا ہے

کہانی ختم ہوتی ہے کسی پیپل کی چھاؤں میں 
میری قسمت میں اکثر سایہء دیوار ہوتا ہے


हमारे अहद में कुछ यूं भी कारोबार होता है
जो शै बेकार हो उसका बहुत प्रचार होता है

हवस का है पुजारी, देवता है कोई चाहत का
जुदा मेरी कहानी का हर एक किरदार होता है

शनाशाई है लहरों से न इन हाथों में है ताकत
किसी की मेहरबानी से ही बेड़ा पार होता है

कोई सूखा शजर ये कह रहा है रोके बादल से
जो काम आ जाये मुश्किल मे वो सच्चा यार होता है

कहानी खत्म होती है किसी पीपल की छाँव में
मेरी क़िस्मत मे अक्सर साया ए दीवार होता है

diary ka ek safha

پتہ ہے آپ کی طرح اس سے بھی میرے بہت اچھے تعلقات تھے... بہت چاہتا تھا اسے... آپ اس لیے بھی اچھے لگتے تھے کہ آپ نے کہا تھا کہ آپ زندگی بھر صرف اپنے کیریئر پر فوکس کریں گے.... اور آپ نے یقین بھی دلایا تھا کہ ایسا ہی ہوگا.. میں چاہتا تھا کہ آپ کو ہمیشہ ساتھ رکھوں اور آپ کو تراش کر ہیرا بناؤں مگر اسی بیچ پتہ نہیں کون سا طوفان آگیا کہ آ گیا کہ آپ کے راستے الگ ہو گئے جو باتیں مجھ سے جاننی تھیں وہ آپ اس سے جاننے لگے.... اگر کوئی بات اسے پتہ نہ ہوتی، تو  وہ مجھ سے پوچھتا... اور آپ کو بتاتا.... اس وقت مجھے بہت عجیب لگا... اگر آپ نے کہا ہوتا تو سب منظور ہوتا مگر سب باتیں پوشیدہ رہیں.. میں غیر ضروری چیز بن کر رہ گیا... آپ کو شاید پتہ نہیں یہ لفظ کتنا زہریلا ہوتا ہے... میں نے خود کو الگ کر لیا.... آج فیس بک کے میرے بہت پرانے پوسٹ پر آپ نے کمنٹ کر کے یہ احساس دلایا.. ایک بار دیکھ لیں وہ پوسٹ کتنا پرانا ہے جسے صرف شیر کیا ہے... ساتھ ہی آپ نے اپنا اسٹیٹس بھی میرے لیے لگایا...

میں اللہ پاک سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ چکا ہوں... اب لوگوں سے رابطہ بھی نہیں ایسے میں آپ نے دل توڑ دیا وہ بھی رمضان میں....

میں یقین کیسے دلاؤں کہ آپ کے چینل والے معاملے میں میں کہیں بھی نہیں.... کیونکہ میں نے زندگی میں بس یہی سیکھا کہ کسی کا بھلا نہ کر سکو تو برا بھی نہ کرو..... ہاں یہ بات آپ کو سمجھانے کے لیے یا بتانے کے لیے مجھے مرنا ہوگا.... چلئے قیامت کا انتظار ہی سہی

Sunday 17 May 2020

Zindagi main tera ghulam nahi

میرے جذبوں کا احترام نہیں؟ 
جا، مجھے تجھ سے کوئی کام نہیں 

رک گیا ہوں ذرا سی دیر کو میں
تو مرا آخری مقام نہیں 

ایک لمحہ کی اب نہیں فرصت
اور کرنے کو کوئی کام نہیں

اب ترا رعب سہ نہیں سکتا
زندگی میں ترا غلام نہیں

اپنا حجرہ ہے کچھ کتابیں ہیں
اب کسی سے دعا سلام نہیں



-------------------------------------

मेरे जज़्बों का एहतेराम नहीं
जा, मुझे तुझसे कोई काम नहीं

रुक गया हूं ज़रा सी देर को मैं
तू मेरा आखिरी मका़म नहीं

एक लम्हा की अब नहीं फु़र्सत
और करने को कोई काम नहीं

अब तेरा रौब सह नहीं सकता
ज़िन्दगी, मैं तेरा गु़लाम नहीं

अपना हुजरा है कुछ किताबें हैं
अब किसी से दुआ सलाम नहीं
_____________________

M R Chishti

‎کہاں ‏گئے ‏وہ ‏لوگ

ہاں! اب وہ لوگ اسی محلے میں بس چکے ہیں۔

شام کا خوبصورت منظر جب گاؤں کی سڑکوں سے ایک بیل گاڑی کے پیچھے میانہ (پالکی) گذر رہا ہے ۔ میانہ کے پیچھے ایک شخص سر پر چنگیرا اٹھائے تیز تیز چل رہا ہے شاید سورج ڈوبنے سے پہلے اسے اپنی منزل پر پہنچ جانا ہے ۔
اسی درمیاں ظہیر شاہ مرحوم عصر کی اذان دینے لگتے ہیں۔ 

یہ وہی دور تھا جب ایک بھیڑ مسجد کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دیتی۔ وہ سارے چہرے آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں ۔
وہ لوگ اکیلے نہیں گئے بہت سارے نام بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گئے ۔

آئیے! دیکھیں کہ ہم نے کیا کیا کھو دیا؟

کوٹھی..  اب ریڈی میڈ ہو گئی
شکھر.. کا وجود ہی ختم ہو گیا..
تحفہ.. جس میں کھیر، پوری، ٹھکوا، پْوا وغیرہ ہوا کرتے تھےجسے  ہم لوگ بَیْنَا کہا کرتے تھے اب وہ بھی نہیں رہا۔
اوکھلی موسل.. بھی ختم
گھیلا اور صراحی.. بھی ختم
کنواں تو پہلے ہی ختم ہوگیا
اگلدان اور سلفچی.. بھی غائب ہوگیا
کھڑاؤن... ایک اور لکڑی کی چپل ہوا کرتی تھی جس کا نام بھول رہا ہوں وہ بھی اب نہیں

لکڑی کا چولہا، سیلوٹ اور ڈگڑا بھی جانے جانے کو ہے۔
لکڑی کی تختی اور کانڑا کا قلم بھی نظر نہیں آتا
نماز پڑھنے کے لیے چھوٹی چوکی ہوا کرتی تھی. اب وہ بھی نہیں
مجھے یاد ہے محلے میں کسی ایک کے پاس کلہاڑی ہوتی تو سارے محلے والوں کا کام چلتا اب وہ کلہاڑی اور چھینٹا کچھ گھڑوں تک ہی سمٹ گیا...

جانے والے اپنے ساتھ بہت کچھ لے گئے.. اور جو سامان بچے ہیں وہ ہم لوگ لے جائیں گے.. ہماری نئی نسلوں کو ایک ماڈرن دنیا  ملے گی...کیونکہ انہیں اپنے اسلاف کو یاد کرنے کی فرصت کہاں ہے؟ ہماری قدر کرو ہم لوگ غنیمت ہیں... چلے گئے تو آخری نشانی بھی لے جائیں گے.... 

ہمارے گھر میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے
پرندوں کے لیے کنڈوں میں پانی کون رکھتا ہے
ہمیں ہیں جو بچا رکھے ہیں اب تک ورنہ اے ناداں
سلیقے سے بزرگوں کی نشانی کون رکھتا ہے

ایم آر چشتی

؛ - - - - - - - - - - - - - - - - - - -

کوئی ایسا نام جو چھوٹ گیا ہو براہ مہربانی کمنٹ میں ضرور لکھیں

Saturday 16 May 2020

‎ ‎دل ‏کی ‏حوالات ‏ ‏ ‏dil ‎ki ‎hawalat

کتنا پاگل ہے وہ جذبات میں آیا ہوا ہے
پھر کوئی دل کی حوالات میں آیا ہوا ہے

میرے خوابوں کے جنازے میں وہ یوں شامل ہے
جیسے اک دوست کی بارات میں آیا ہوا ہے

پھر ہوا بن کے کھڑا ہے مرے دروازے پر
کوئی قاتل ہے جو برسات میں آیا ہوا ہے

ہاں وہی لفظ جسے پڑھنا میرے بس میں نہیں
زندگانی کے سوالات میں آیا ہوا ہے

اپنے ہاتھوں میں لئے رشتوں کی بوسیدہ کتاب
شہر سے چل کے وہ  دیہات میں آیا ہوا ہے

دھوپ اب لگتی ہے ساون کی پھہاروں جیسی
جب سے تو شہر خیالات میں آیا ہوا ہے



कितना पागल है वो ज़ज्बात में आया है
फिर कोई दिल की हवालात में आया हुआ है

मेरे ख़्वाबों के जनाजे में वो यूँ शामिल है 
जैसे एक दोस्त की बारात में आया हुआ है

फिर हवा बनके खड़ा है मेरे दरवाज़े पर
कोई क़ातिल है जो बरसात में आया हुआ है

हाँ वही लफ्ज़ जिसे पढ़ना मेरे बस में नहीं
जिंदगानी के सवालात में आया हुआ है

अपने हाथों में लिये रिश्तों की बोसीदा किताब
शहर से चलके वो देहात में आया हुआ है

धूप अब लगती है, सावन की फुहारों जैसी
जब से तू शहर ए ख़यालात में आया हुआ है

Thursday 14 May 2020

پچیس ‏سال ‏پہلے ‏کا ‏رمضان

پچیس سال پہلے کا رمضان

کتنا خوبصورت دور تھا وہ۔  اس دور میں اکثر لوگ روزہ رکھا کرتے تھے ۔  گھر میں ظہر کے بعد سے ہی افطاری بننی شروع ہو جاتی۔ مٹی کے چولہے پر چڑھی ہوئی کڑاہی میں جب گلگلے چھانے جاتے تو بچے حسرت بھری نگاہ سے دیکھا کرتے۔ مگر کیا مجال کہ کوئی روزہ توڑ دے۔  پڑوس سے سیوئی بنانے والی مشین مانگی جاتی آٹا گوندھا جاتا اور پھر دو لوگ اسے چلانے میں لگ جاتے۔ کیا خوبصورت دن تھے وہ۔
شام ہوتی تو وضو کرکے دسترخوان کے پاس بیٹھ جاتے آج کی طرح مختلف قسم کی اشیا اس وقت دستیاب نہیں تھیں پھر بھی جو بھی حاصل تھا وہی کافی تھا کیونکہ آج کی طرح لوگ اس کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کرتے تھے ۔ تراویح کی نماز کا بھی ایک الگ مزہ ہوا کرتا تھا۔ ہم بچے چار چھ رکعتوں کے بعد تھک جاتے تو شیطانی شروع ہو جاتی کوئی سجدے میں ہے تو اس کی پیٹھ پر اس طرح شاباشی دی جاتی کہ مسجد گونج جاتی۔ ایک بار اور تھی اس دور میں چپل بھی اکثر چوری ہو جایا کرتی تھی آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ دلیر شخص کون تھا جس نے شیطانوں کے نمائندگی کی تھی۔ بہر حال اس کا بھی عجب لطف تھا
مزہ تو عید کا چاند دیکھنے میں آتا۔ لوگ جلد افطار اور نماز سے فارغ ہوکر تالاب کے کنارے کھڑے ہو جاتے۔ میں جب آسمان میں چاند ڈھونڈتا تو یا تو نظر ہی نہیں آتا یا ایک ساتھ کئی کئی چاند دکھائی دینے لگتے۔ میرا نصیب میں نے آج تک پہلے چاند نہیں دیکھا۔
اگر چاند نظر آگیا تو پھر عید کی تیاریاں شروع، اور نظر نہیں آیا تو مقصود پور، ددری اور دوسرے مقامات کے اداروں سے رابطہ شروع کیا جاتا۔ کئی بار نصف شب میں تو  کئی بار صبح میں خبر ملتی۔ اس دور میں سوشل میڈیا کا زہر نہیں گھلا تھا۔

آج افطاری میں دسترخوان بھرا رہتا ہے مگر اس ذائقہ کو ترس جاتا ہوں جو ماں کے بنائے ہوئے گلگلے، کچری اور چنے میں تھا۔

ایم آر چشتی
*سنو!! ایسا نہیں کرتے*

سنو!! ایسا نہیں کرتے 
محبت کرنے والوں کو 
کبھی رسوا نہیں کرتے
تمہیں معلوم ہے نا! 
یہ جہاں دشمن ہے چاہت کی
ہزاروں لوگ میں
بس کوئی کوئی ایسا ملتا ہے 
جن کو ہماری فکر ہوتی ہے 
ہمارا ایک اک لمحہ 
کسی کو پیارا ہوتا ہے
وہ ان کو کھو نہیں سکتے
تمہیں معلوم ہے نا! 
وہ درد کے ساگر میں اکثر ڈوب جاتے ہیں 
مگر رویا نہیں کرتے
کیونکہ 
انہیں اپنی محبت پر یقیں ہی اتنا ہوتا ہے 
انہیں لگتا ہے
چاہت کا پرندہ اڑ بھی جائے تو
اسے پھر شام ہوتے  
لوٹ کر آنا ہی پڑتا ہے 
سنو!! 
ایسا نہیں کرتے 
وہ جن کے دل میں چاہت کی شمع ہر ایک لمحہ جلتی رہتی ہے 
یہ قدرت کا دیا انعام ہیں 
انہیں کھویا نہیں کرتے 
محبت کی زمیں پر بے رخی کے بیج
بھولے سے کبھی بویا نہیں کرتے.. 
انتخاب
آئی ہے عید پھر کوئی نشتر لیے ہوئے
لمحے کھڑے ہیں یاد کے خنجر لئے ہوئے 

یاد آرہی ہے مجھ کو وہ گذرے دنوں کی بات
جب دن سہانے اور بہت ہی حسیں تھی رات

اس وقت کوئی درد کا عنوان بھی نہ تھا
میں آج کی طرح سے پریشان بھی نہ تھا

میری نظر میں پھول سا چہرہ کسی کا تھا
وہ وقت تھا کہ سر پہ بھی سایہ کسی کا تھا

وہ رات عید کی میں بھلاؤں تو کس طرح
سوکھے شجر پہ پھول کھلاؤں تو کس طرح 

کس سے کہوں کہ نکلا ہے پھر چاند عید کا
آنکھوں میں ڈوبا ڈوبا ہے پھر چاند عید کا

ہے کون جو دے عیدی محبت کے ساتھ ساتھ
دامن بھرے دعاؤں کی برکت کے ساتھ ساتھ 

آئے گی عید یادوں کی پروائیوں کے ساتھ
ہر لمحہ میرا گذرے گا پرچھائیوں کے ساتھ

تم کیا گئے چچا کہ نظارے چلے گئے
ہمراہ تیرے چاند ستارے چکے گئے

محسن ،رفیق، گاؤں کے پیارے چلے گئے
غم دے کے مجھ کو ہجر کے سارے چلے گئے 

چشتی وہ جن کا لوٹنا اک خواب ہے مگر
ہر آستاں پہ ان کو پکارے چلے گئے
रमजान की अहमियत

इस्लाम की बुनियाद 5 चीजों पर है. 1.तौहीद, (अल्लाह को एक मानना और हज़रत मुहम्मद को अल्लाह का नबी मानना) 2. नमाज़, 3.रोजा, 4.हज और 5. जकात
 इनमे हज और जकात तो सिर्फ अमीरों के लिए हैं जबकि तौहीद, नमाज और रोज़ा सभी मुसलमानों पर फ़र्ज़ है.
रोजा को अरबी में सौम कहते हैं. सूरज निकलने के पहले(सेहरी) से सूरज के डूबने(इफ्तार)तक खाना पानी से ही खुद को अलग रखने का ही नाम रोजा नहीं बल्कि इस दरम्यान आँख, कान, मुँह और अपने दिल को भी बुराइयों से दूर रखना जरूरी है.
सभी धर्मों में रोजा को एक खास मुकाम हासिल है और हर धर्म वाले इसे अपने अपने तरीके से रखते हैं . इसे फास्टिंग या उपवास के नाम से भी जाना जाता है.

रमजान के रोज़े की सबसे बड़ी बात ये है कि एक महीने के लिए होता है. इस एक महीने मे इंसान चाहे तो अपनी सारी बुरी आदतों को बदल सकता है. भूखे रहने से दूसरों की भूख का एहसास होता है. इससे इंसान मे बड़ा बदलाव आता है. साथ ही एक महीने तक बुरी चीजों से खुद को अलग रखते रखते इंसान की आदत ही बदल जाती है
नोबल पुरस्कार से सम्मानित जापानी वैज्ञानिक योशी नोरी ने अपनी खोज से साबित किया है कि जो इंसान साल में 20 से 27 दिन तक 12 से 16 घंटे भूखा रहे उसे कैंसर रोग नहीं हो सकता. वो बताते हैं कि जब इंसान भूखा रहता है तो कोशिकाओं में बदलाव होने शुरू हो जाते हैं जब बाहर से भोजन नहीं मिलता तो वो खुद ही सड़े, गले, खराब और ऐसी कोशिकाओं को खाने लगती हैं  जो बदन के लिए नुकसानदायक हों. विज्ञान में इसे Autophagy कहते हैं. यही काम जब 4 हफ्तों तक लगातार हो तो कैंसर हो ही नहीं सकता. यही बात 1974 में बेल्जियम के एक वैज्ञानिक भी कही थी जिसकी वजह से उन्हें पुरस्कृत भी किया गया था.
रोजा के दरम्यान पाबंदी से नमाज़ और कुरान की तिलावत के अलावा विशेष रूप से तरावीह की नमाज़ भी पढ़ी जाती है जो काफ़ी लंबी होती है. इससे शरीर की मांसपेशियों में खिंचाव पैदा होता है जिससे हड्डियों और नसों से जुड़ी बीमारियां दूर होती हैं. 
दिन भर भूखे प्यासे रहने के बाद शाम में आम दिनों से बेहतर और पोष्टिक खाना मिलता है. जिससे नया खून बनता है और यही काम जब एक माह तक होता रहता तो इंसान का जिस्म पूरी तरह से फिट हो जाता है.
रमजान को तीन हिस्सों में बांटा गया है पहला दस दिन रहमत का दूसरा दस दिन मगफिरत और तीसरा और आखिरी दस दिन जहन्नुम से छुटकारे का. इस आखिरी दस दिनों में 21,23,25,27 या 29 रमजान की कोई एक रात शब ए कद्र कहलाती है जो हज़ार रातों से बेहतर होती है.
इसी माह में कुरान उतारा गया. इस माह में लोग ज़्यादा से ज्यादा जकात (दान) देते हैं क्यूंकि एक नेकी का सवाब सत्तर गुना ज्यादा मिलता है.
मैं अपने जन्मदिन पर खुद को तोहफा देने आया हूं

यह एक छोटा सा थैला जिसके अंदर हैं कई चीज़े, 
किताबें, कापियां , ख़त , और कुछ सिगरेट के डब्बे हैं
पुरानी डायरी, टूटा कलम, दो एक सूखे फूल
बहुत पहले की एक तस्वीर है और कुछ रिसाले हैं
मुझे इस बार जलती मोमबत्ती भी बुझानी है
मुझे यह चॉकलेटी केक खुद को भी खिलाना है
फिर उसके बाद  करनी है मुझे खुद से कई बातें
ज़माने बाद, खुद को अपने सीने से लगाना है
मुझे आँखों में खुद की झाँक कर एक बार हंसना है
दिखाना है फिर उसके बाद अपने पाँव के छाले 
इसी उम्मीद में की वक्त बदलेगा कभी अपना 
हजारों ख्वाब सीने में ही अपने रह गया पाले 
किसी को दुख दिया मैंने न शिकवा और शिकायत की
मेरा शेवा मोहब्बत था सो हर एक से मोहब्बत की 
मगर मेरी वफा को आजतक समझा नहीं कोई 
मुझे क्या चाहिए औरों से ये जाना नहीं कोई 
मैं खुद से पूछता हूं किस लिए दुनिया में आया हूं 
मुझे खुद भी नहीं मालूम है मैं किसका साया हूँ
यह मैं, मैं ही नहीं हूं, मेरे अन्दर मेरे अपने हैं 
न जाने कितनी उम्मीदें, न जाने कितने सपने हैं
अंधेरा छा रहा है इससे पहले कि मैं सो जाऊँ 
बहुत दिन रह लिया औरों का अब खुद का भी हो जाऊँ
میں اپنے جنم دن پر خود کو تحفہ دینے آیا ہوں

یہ اک چھوٹا سا تھیلہ جس کے اندر ہیں کئی چیزیں 
کتابیں، کاپیاں، خط، اور کچھ سگریٹ کے ڈبے ہیں 
پرانی ڈائری، ٹوٹا قلم دو ایک سوکھے پھول
بہت پہلے کی اک تصویر ہے اور کچھ رسالے ہیں
مجھے اس بار جلتی موم بتی بھی بجھانی ہے
مجھے یہ چاکلیٹی کیک خود کو بھی کھلانا ہے
پھر اس کے بعد کرنی ہیں مجھے خود سے کئی باتیں
زمانے بعد خود کو اپنے سینے سے لگانا ہے
مجھے آنکھوں میں خود کے جھانک کر اک بار ہنسنا ہے
دکھانا ہے پھر اس کے بعد اپنے پاؤں کے چھالے
اسی امید پر کہ وقت بدلے گا کبھی میرا
ہزاروں خواب سینے میں ہی اپنے رہ گیا پالے
کسی کو دکھ دیا نہ میں نے شکوہ اور شکایت کی
میرا شیوہ محبت تھا سو ہر اک سے محبت کی
مگر میری وفا کو آج تک سمجھا نہیں کوئی
کسی سے کیا مجھے امید ہے جانا نہیں کوئی
میں خود سے پوچھتا ہوں کس لیے دنیا میں آیا ہوں
مجھے خود بھی نہیں معلوم ہے میں کس کا سایہ ہوں 
یہ میں،میں ہی نہیں ہوں میرے اندر میرے اپنے ہیں
نہ جانے کتنی امیدیں نہ جانے کتنے سپنے ہیں 
اندھیرا چھارہا ہے اس سے پہلے کہ میں سو جاؤں
بہت دن رہ لیا اوروں کا اب خود کا بھی ہو جاؤں
خوب چلی پاگل پروائی گھر کے سونے آنگن میں
 یاد تیری رہ  رہ کر آئی گھر کے سونے آنگن میں

آج ہے موقع چاند میرے تم مجھ سے ملنے آجاؤ 
میں ہوں اور میری تنہائی گھر کے سونے آنگن میں

جانے والے لوٹ کے آجا اب بھی تیری یادوں کی
 بجتی رہتی ہے شہنائی گھر کے سونے آنگن میں

کوئل کو کو کرتی ہے جب نیم کی اونچی شاخوں پر
 دیکھتا ہوں میں ایک پرچھائیں گھر کے سونے آنگن میں 


چاند، ستارو، پیاری ہواؤ،آؤ، آؤ،آجاؤ
اک محفل ہے میں نے سجائی گھر کے سونے آنگن میں

جس پر تو نے پیار سے ایک دن نام میرا لکھوایا تھا
 میں نے وہ انگوٹھی پائی گھر کے سونے آنگن میں
میرا  آسماں ہے نہ میری زمیں ہے
جہاں ہوں وہاں میرا کوئی نہیں ہے
مجھے راہ دکھلادے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی


میرے گھر کا چھوٹا سا آنگن مجھے اب صدا دے رہا ہے
مگر وقت بے درد ہے ہر گھڑی امتحاں لے رہا ہے
بہت ہے میرے واسطے میرا گاگر
نہیں چاہئے اب مجھے کوئی ساگر
میں الجھا ہوں سلجھا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی

میرے لاڈلا  مجھ کو بھیگی نگاہوں سے جب دیکھتا ہے سہم کر میں خود سے ہی پھر پوچھتا ہوں یہ کیا ہورہا ہے
اگر اپنی دہلیز پر جاؤں گا میں
پلٹ کر دوبارہ نہیں آؤں گا میں
میرے دل کو بہلا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی 

اے صاحب میرے پاس گھر لوٹنے کا کرایہ نہیں ہے 
مگر مجھ کو اس شہر میں ایک دن اور رہنا نہیں ہے
 تری ساری شرطیں ہیں منظور مجھ کو
مگر گھر سے رہنا نہیں دور مجھ کو
کروں کیا یہ سمجھا دے کوئی 
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی

ایم آر چشتی