Thursday, 14 May 2020

میں اپنے جنم دن پر خود کو تحفہ دینے آیا ہوں

یہ اک چھوٹا سا تھیلہ جس کے اندر ہیں کئی چیزیں 
کتابیں، کاپیاں، خط، اور کچھ سگریٹ کے ڈبے ہیں 
پرانی ڈائری، ٹوٹا قلم دو ایک سوکھے پھول
بہت پہلے کی اک تصویر ہے اور کچھ رسالے ہیں
مجھے اس بار جلتی موم بتی بھی بجھانی ہے
مجھے یہ چاکلیٹی کیک خود کو بھی کھلانا ہے
پھر اس کے بعد کرنی ہیں مجھے خود سے کئی باتیں
زمانے بعد خود کو اپنے سینے سے لگانا ہے
مجھے آنکھوں میں خود کے جھانک کر اک بار ہنسنا ہے
دکھانا ہے پھر اس کے بعد اپنے پاؤں کے چھالے
اسی امید پر کہ وقت بدلے گا کبھی میرا
ہزاروں خواب سینے میں ہی اپنے رہ گیا پالے
کسی کو دکھ دیا نہ میں نے شکوہ اور شکایت کی
میرا شیوہ محبت تھا سو ہر اک سے محبت کی
مگر میری وفا کو آج تک سمجھا نہیں کوئی
کسی سے کیا مجھے امید ہے جانا نہیں کوئی
میں خود سے پوچھتا ہوں کس لیے دنیا میں آیا ہوں
مجھے خود بھی نہیں معلوم ہے میں کس کا سایہ ہوں 
یہ میں،میں ہی نہیں ہوں میرے اندر میرے اپنے ہیں
نہ جانے کتنی امیدیں نہ جانے کتنے سپنے ہیں 
اندھیرا چھارہا ہے اس سے پہلے کہ میں سو جاؤں
بہت دن رہ لیا اوروں کا اب خود کا بھی ہو جاؤں

No comments:

Post a Comment