ہاں! اب وہ لوگ اسی محلے میں بس چکے ہیں۔
شام کا خوبصورت منظر جب گاؤں کی سڑکوں سے ایک بیل گاڑی کے پیچھے میانہ (پالکی) گذر رہا ہے ۔ میانہ کے پیچھے ایک شخص سر پر چنگیرا اٹھائے تیز تیز چل رہا ہے شاید سورج ڈوبنے سے پہلے اسے اپنی منزل پر پہنچ جانا ہے ۔
اسی درمیاں ظہیر شاہ مرحوم عصر کی اذان دینے لگتے ہیں۔
یہ وہی دور تھا جب ایک بھیڑ مسجد کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دیتی۔ وہ سارے چہرے آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں ۔
وہ لوگ اکیلے نہیں گئے بہت سارے نام بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گئے ۔
آئیے! دیکھیں کہ ہم نے کیا کیا کھو دیا؟
کوٹھی.. اب ریڈی میڈ ہو گئی
شکھر.. کا وجود ہی ختم ہو گیا..
تحفہ.. جس میں کھیر، پوری، ٹھکوا، پْوا وغیرہ ہوا کرتے تھےجسے ہم لوگ بَیْنَا کہا کرتے تھے اب وہ بھی نہیں رہا۔
اوکھلی موسل.. بھی ختم
گھیلا اور صراحی.. بھی ختم
کنواں تو پہلے ہی ختم ہوگیا
اگلدان اور سلفچی.. بھی غائب ہوگیا
کھڑاؤن... ایک اور لکڑی کی چپل ہوا کرتی تھی جس کا نام بھول رہا ہوں وہ بھی اب نہیں
لکڑی کا چولہا، سیلوٹ اور ڈگڑا بھی جانے جانے کو ہے۔
لکڑی کی تختی اور کانڑا کا قلم بھی نظر نہیں آتا
نماز پڑھنے کے لیے چھوٹی چوکی ہوا کرتی تھی. اب وہ بھی نہیں
مجھے یاد ہے محلے میں کسی ایک کے پاس کلہاڑی ہوتی تو سارے محلے والوں کا کام چلتا اب وہ کلہاڑی اور چھینٹا کچھ گھڑوں تک ہی سمٹ گیا...
جانے والے اپنے ساتھ بہت کچھ لے گئے.. اور جو سامان بچے ہیں وہ ہم لوگ لے جائیں گے.. ہماری نئی نسلوں کو ایک ماڈرن دنیا ملے گی...کیونکہ انہیں اپنے اسلاف کو یاد کرنے کی فرصت کہاں ہے؟ ہماری قدر کرو ہم لوگ غنیمت ہیں... چلے گئے تو آخری نشانی بھی لے جائیں گے....
ہمارے گھر میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے
پرندوں کے لیے کنڈوں میں پانی کون رکھتا ہے
ہمیں ہیں جو بچا رکھے ہیں اب تک ورنہ اے ناداں
سلیقے سے بزرگوں کی نشانی کون رکھتا ہے
ایم آر چشتی
؛ - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
No comments:
Post a Comment