Thursday, 14 May 2020

پچیس ‏سال ‏پہلے ‏کا ‏رمضان

پچیس سال پہلے کا رمضان

کتنا خوبصورت دور تھا وہ۔  اس دور میں اکثر لوگ روزہ رکھا کرتے تھے ۔  گھر میں ظہر کے بعد سے ہی افطاری بننی شروع ہو جاتی۔ مٹی کے چولہے پر چڑھی ہوئی کڑاہی میں جب گلگلے چھانے جاتے تو بچے حسرت بھری نگاہ سے دیکھا کرتے۔ مگر کیا مجال کہ کوئی روزہ توڑ دے۔  پڑوس سے سیوئی بنانے والی مشین مانگی جاتی آٹا گوندھا جاتا اور پھر دو لوگ اسے چلانے میں لگ جاتے۔ کیا خوبصورت دن تھے وہ۔
شام ہوتی تو وضو کرکے دسترخوان کے پاس بیٹھ جاتے آج کی طرح مختلف قسم کی اشیا اس وقت دستیاب نہیں تھیں پھر بھی جو بھی حاصل تھا وہی کافی تھا کیونکہ آج کی طرح لوگ اس کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کرتے تھے ۔ تراویح کی نماز کا بھی ایک الگ مزہ ہوا کرتا تھا۔ ہم بچے چار چھ رکعتوں کے بعد تھک جاتے تو شیطانی شروع ہو جاتی کوئی سجدے میں ہے تو اس کی پیٹھ پر اس طرح شاباشی دی جاتی کہ مسجد گونج جاتی۔ ایک بار اور تھی اس دور میں چپل بھی اکثر چوری ہو جایا کرتی تھی آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ دلیر شخص کون تھا جس نے شیطانوں کے نمائندگی کی تھی۔ بہر حال اس کا بھی عجب لطف تھا
مزہ تو عید کا چاند دیکھنے میں آتا۔ لوگ جلد افطار اور نماز سے فارغ ہوکر تالاب کے کنارے کھڑے ہو جاتے۔ میں جب آسمان میں چاند ڈھونڈتا تو یا تو نظر ہی نہیں آتا یا ایک ساتھ کئی کئی چاند دکھائی دینے لگتے۔ میرا نصیب میں نے آج تک پہلے چاند نہیں دیکھا۔
اگر چاند نظر آگیا تو پھر عید کی تیاریاں شروع، اور نظر نہیں آیا تو مقصود پور، ددری اور دوسرے مقامات کے اداروں سے رابطہ شروع کیا جاتا۔ کئی بار نصف شب میں تو  کئی بار صبح میں خبر ملتی۔ اس دور میں سوشل میڈیا کا زہر نہیں گھلا تھا۔

آج افطاری میں دسترخوان بھرا رہتا ہے مگر اس ذائقہ کو ترس جاتا ہوں جو ماں کے بنائے ہوئے گلگلے، کچری اور چنے میں تھا۔

ایم آر چشتی

No comments:

Post a Comment