میرا آسماں ہے نہ میری زمیں ہے
جہاں ہوں وہاں میرا کوئی نہیں ہے
مجھے راہ دکھلادے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی
میرے گھر کا چھوٹا سا آنگن مجھے اب صدا دے رہا ہے
مگر وقت بے درد ہے ہر گھڑی امتحاں لے رہا ہے
بہت ہے میرے واسطے میرا گاگر
نہیں چاہئے اب مجھے کوئی ساگر
میں الجھا ہوں سلجھا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی
میرے لاڈلا مجھ کو بھیگی نگاہوں سے جب دیکھتا ہے سہم کر میں خود سے ہی پھر پوچھتا ہوں یہ کیا ہورہا ہے
اگر اپنی دہلیز پر جاؤں گا میں
پلٹ کر دوبارہ نہیں آؤں گا میں
میرے دل کو بہلا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی
اے صاحب میرے پاس گھر لوٹنے کا کرایہ نہیں ہے
مگر مجھ کو اس شہر میں ایک دن اور رہنا نہیں ہے
تری ساری شرطیں ہیں منظور مجھ کو
مگر گھر سے رہنا نہیں دور مجھ کو
کروں کیا یہ سمجھا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی
ایم آر چشتی
No comments:
Post a Comment