Thursday, 14 May 2020

میرا  آسماں ہے نہ میری زمیں ہے
جہاں ہوں وہاں میرا کوئی نہیں ہے
مجھے راہ دکھلادے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی


میرے گھر کا چھوٹا سا آنگن مجھے اب صدا دے رہا ہے
مگر وقت بے درد ہے ہر گھڑی امتحاں لے رہا ہے
بہت ہے میرے واسطے میرا گاگر
نہیں چاہئے اب مجھے کوئی ساگر
میں الجھا ہوں سلجھا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی

میرے لاڈلا  مجھ کو بھیگی نگاہوں سے جب دیکھتا ہے سہم کر میں خود سے ہی پھر پوچھتا ہوں یہ کیا ہورہا ہے
اگر اپنی دہلیز پر جاؤں گا میں
پلٹ کر دوبارہ نہیں آؤں گا میں
میرے دل کو بہلا دے کوئی
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی 

اے صاحب میرے پاس گھر لوٹنے کا کرایہ نہیں ہے 
مگر مجھ کو اس شہر میں ایک دن اور رہنا نہیں ہے
 تری ساری شرطیں ہیں منظور مجھ کو
مگر گھر سے رہنا نہیں دور مجھ کو
کروں کیا یہ سمجھا دے کوئی 
مجھے گاؤں پہنچا دے کوئی

ایم آر چشتی 

No comments:

Post a Comment