آئی ہے عید پھر کوئی نشتر لیے ہوئے
لمحے کھڑے ہیں یاد کے خنجر لئے ہوئے
یاد آرہی ہے مجھ کو وہ گذرے دنوں کی بات
جب دن سہانے اور بہت ہی حسیں تھی رات
اس وقت کوئی درد کا عنوان بھی نہ تھا
میں آج کی طرح سے پریشان بھی نہ تھا
میری نظر میں پھول سا چہرہ کسی کا تھا
وہ وقت تھا کہ سر پہ بھی سایہ کسی کا تھا
وہ رات عید کی میں بھلاؤں تو کس طرح
سوکھے شجر پہ پھول کھلاؤں تو کس طرح
کس سے کہوں کہ نکلا ہے پھر چاند عید کا
آنکھوں میں ڈوبا ڈوبا ہے پھر چاند عید کا
ہے کون جو دے عیدی محبت کے ساتھ ساتھ
دامن بھرے دعاؤں کی برکت کے ساتھ ساتھ
آئے گی عید یادوں کی پروائیوں کے ساتھ
ہر لمحہ میرا گذرے گا پرچھائیوں کے ساتھ
تم کیا گئے چچا کہ نظارے چلے گئے
ہمراہ تیرے چاند ستارے چکے گئے
محسن ،رفیق، گاؤں کے پیارے چلے گئے
غم دے کے مجھ کو ہجر کے سارے چلے گئے
چشتی وہ جن کا لوٹنا اک خواب ہے مگر
ہر آستاں پہ ان کو پکارے چلے گئے
No comments:
Post a Comment