Thursday, 14 May 2020

آئی ہے عید پھر کوئی نشتر لیے ہوئے
لمحے کھڑے ہیں یاد کے خنجر لئے ہوئے 

یاد آرہی ہے مجھ کو وہ گذرے دنوں کی بات
جب دن سہانے اور بہت ہی حسیں تھی رات

اس وقت کوئی درد کا عنوان بھی نہ تھا
میں آج کی طرح سے پریشان بھی نہ تھا

میری نظر میں پھول سا چہرہ کسی کا تھا
وہ وقت تھا کہ سر پہ بھی سایہ کسی کا تھا

وہ رات عید کی میں بھلاؤں تو کس طرح
سوکھے شجر پہ پھول کھلاؤں تو کس طرح 

کس سے کہوں کہ نکلا ہے پھر چاند عید کا
آنکھوں میں ڈوبا ڈوبا ہے پھر چاند عید کا

ہے کون جو دے عیدی محبت کے ساتھ ساتھ
دامن بھرے دعاؤں کی برکت کے ساتھ ساتھ 

آئے گی عید یادوں کی پروائیوں کے ساتھ
ہر لمحہ میرا گذرے گا پرچھائیوں کے ساتھ

تم کیا گئے چچا کہ نظارے چلے گئے
ہمراہ تیرے چاند ستارے چکے گئے

محسن ،رفیق، گاؤں کے پیارے چلے گئے
غم دے کے مجھ کو ہجر کے سارے چلے گئے 

چشتی وہ جن کا لوٹنا اک خواب ہے مگر
ہر آستاں پہ ان کو پکارے چلے گئے

No comments:

Post a Comment