تڑپ، الجھن، امیدوں کا جنازہ، اور بیتابی
ذرا دیکھو مرے جیسے کسی مجبور کے آنسو
مرے ہاتھوں میں اب میری تمناؤں کی لاشیں ہیں
میری آنکھوں سے بہتے ہیں مظفرپور کے آنسو
میں اپنے گاؤں کی گلیوں میں جب بھٹکتا ہوں
پکارتا ہے کوئی مجھ کو شاہ راہوں سے
یہ کس نے دے دیا کشکول میرے ہاتھوں میں
مرا تو سلسلہ ملتا ہے بادشاہوں سے
ہم پیار میں لٹ جانا گوارا نہیں کرتے
جو لوٹ گیا اس کو پکارا نہیں کرتے
اک ایسے قبیلے سے تعلق ہے مرا جو
لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں ہارا نہیں کرتے
اندھیرے جب تیری تصویر کو نگل جائیں
تو کیوں نہ ایسے مقامات سے نکل جائیں
رہ وفا میں کبھی وصل کو مچل جائیں
تمہارا نام سنیں اور ہم بہل جائیں
ذرا دیکھو مرے جیسے کسی مجبور کے آنسو
مرے ہاتھوں میں اب میری تمناؤں کی لاشیں ہیں
میری آنکھوں سے بہتے ہیں مظفرپور کے آنسو
میں اپنے گاؤں کی گلیوں میں جب بھٹکتا ہوں
پکارتا ہے کوئی مجھ کو شاہ راہوں سے
یہ کس نے دے دیا کشکول میرے ہاتھوں میں
مرا تو سلسلہ ملتا ہے بادشاہوں سے
ہم پیار میں لٹ جانا گوارا نہیں کرتے
جو لوٹ گیا اس کو پکارا نہیں کرتے
اک ایسے قبیلے سے تعلق ہے مرا جو
لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں ہارا نہیں کرتے
اندھیرے جب تیری تصویر کو نگل جائیں
تو کیوں نہ ایسے مقامات سے نکل جائیں
رہ وفا میں کبھی وصل کو مچل جائیں
تمہارا نام سنیں اور ہم بہل جائیں
No comments:
Post a Comment