Monday, 16 March 2020

مجھے رونا نہیں آتا*
مجھے رونا نہیں آتا
زمانہ لاکھ مجھ کو درد دے
میں ہنستا رہتا ہوں
نہ جانے کیوں،
میں رونا چاہتا ہوں
رو نہیں پاتا
میری پلکوں پہ خوابوں کا بسیرا
ہو نہیں پاتا
میں سونا چاہتا ہوں
سو نہیں پتا
ہزاروں غم میرے سینے میں پلتے ہیں
ہزاروں دکھ میرے ہمراہ چلتے ہیں
ہزاروں ذخم ایسے ہیں
جو صدیوں سے مجھے تکلیف دیتے ہیں
میرے رونے کا موسم
اک زمانے سے نہیں آیا
اگر آجائے تو
خوشیاں مناؤں کھلکھلا ؤں میں
غموں کے اس سمندر میں
خوشی سے ڈوب جاؤں میں
میں روؤں ایسے کہ مجھ کو سکوں مل جائے
مگر میں رو نہیں سکتا
یا یوں سمجھیں
مجھے رونا نہیں آتا
میں وہ انسان ہوں
جو خواب کے سائے میں جیتا ہوں
میں وہ میکش ہوں
جو ہر پل غموں کا زہر پیتا ہوں
میں رویا تو
میری خودداری کا ہر ایک شیشہ ٹوٹ جائے گا
 ہمیشہ کے لئے پھر کوئی ہم سے روٹھ جائے گا

No comments:

Post a Comment