Monday, 16 March 2020

راہ الفت میں بکھر جانے دو
عشق کی حد سے گذر جانے دو

جان و دل میں نے ترے نام کیا
زیست میں ایک یہی کام کیا
کون ہے تیرے سوا اب میرا
عشق میں خود کو ہی نیلام کیا

ساتھیا اب مجھے مر جانے دو
عشق کی حد سے گذر جانے دو

مجھ کو محبوب ملا ہے ایسا
روح کا جس سے سے جڑا ہے رشتہ
اس کی چوکھٹ میری منزل یارو
اس کا دیدار ہی مقصد ٹھہرا

کام جو کرنا ہے کر جانے دو
عشق کی حد سے گزر جانے دو

ایک ہی روپ نگاہوں میں رہے
جس کو جینا ہے جئیے چاہے مرے
عشق میں راکھ ہوا جل کے دماغ
فیصلہ کرنا ہے اب دل ہی کرے

دل کی دنیا کو سنور جانے دو
عشق کی حد سے گزر جانے دو

یہ میری آنکھ رہی اور یہ دل
ایک ہے راستہ اور اک منزل
بس ترے نام پہ سب وار دیا
کاش بن جاؤں میں تیرے قابل

اک خلا باقی ہے بھر جانے دو
عشق کی حد سے گزر جانے دو

No comments:

Post a Comment