Monday, 16 March 2020

دسمبر آگیا ہے

تیرا ملنا بچھڑنا اور پھر گمنام ہو جانا
مقدر کی لکیروں میں سمانا اور کھو جانا
یہی اپنا نصیبہ تھا
یہی دن تھے یہی راتیں
ہاں بالکل اس طرح ہی دھوپ
آنگن میں اترتی تھی
منڈیروں سے گزرتی تھی
وہ دھندلی شام جب آہٹ پہ یکدم چونک اٹھتا تھا
تیرا معصوم سا چہرہ
میری نظروں میں ہوتا تھا
دسمبر میں مزاج موسم کا جس طرح بدلتا ہے
سنہری دھوپ کو آنگن ترستا ہے
سجھائی کچھ نہیں دیتا
دکھائی کچھ نہیں دیتا
میرے جیون میں بھی ایسا ہی کچھ سانحہ گزرا
حقیقت کی کرن اتری یوں خوابوں کے سمندر میں
میری چاہت کی دنیا لٹ گئی پچھلے دسمبر میں

No comments:

Post a Comment