Friday, 20 March 2020

یوں تو کسی کے سامنے شکوہ نہیں کیا
دل میرا تونے توڑ کے اچھا نہیں کیا

پیاسا رہا ہمیشہ گھٹاؤں کے درمیاں
میں نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا

اب اپنے حال زار پر ہنستا ہوں دوستو
میں نے تمہارے واسطے کیا کیا نہیں کیا

میں بھی خموش صرف اسے دیکھتا رہا
اس نے بھی ساتھ دینے کا وعدہ نہیں کیا

میں بھی اتار سکتا تھا آنگن میں کوئی چاند
یہ اور بات اس کا  ارادہ نہیں کیا

چشتی کبھی حیات سے میری نہیں بنی
جو کام جیسا کرنا تھا ویسا نہیں کیا

No comments:

Post a Comment